حضرت فاطمه زهرا عليهاالسلام نے فرمایا:
یا علیؑ مجھے خدا سے شرم آتی ھے کہ آپ سے ایسی چیز کی فرمائش کروں جو آپ کی قدرت سے باہر ہے
تحف العقول ص ۹۵۸
ایک اچھے مدرس کے اوصاف
معلم تعلیم کا ایک بنیادی و لازمی عنصر اور نظام تعلیم کی کامیابی و مقاصد کے حصول کا اہم کردار ہوتا ہے۔ معلم ہر وہ انسان ہے جس سے دوسرے لوگ سیکھیں جبکہ مدرس وہ انسان ہے جو تدریس کو اپنا پیشہ بناتا ہے۔ مدرس اپنی شخصیت، پیشہ اور عمومی کردار کے لحاظ سے نمایاں اوصاف کا حامل ہو کر ہی تدریس میں مؤثر اور نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ اور ان اوصاف کی مدد سے وہ تعلیمی عمل کو مؤثر اور بامقصد بنا سکتا ہے ۔ مدرس کی چند ذاتی، پیشہ وارانہ اور عموی اوصاف درج ذیل ہیں:
اخلاص: تدریس ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے۔ لہٰذا استاذ میں اپنے پیشے، طلبہ اور مضمون کے اعتبار سے اخلاص ایک کلیدی وصف ہے۔
جسمانی صحت : ذہنی اور جسمانی لحاظ سے ایسی معذوری میں مبتلا نہ ہو جس سے تدریس کرنے سے ہی قاصر ہو۔
دلکش شخصیت : نظافت و نفاست کی حامل شخصیت کا مالک ہو۔ کیونکہ اس کی ظاہری نظافت و نفاست کی اس کی تدریس اور طلبہ کے تعلم کو متاثر کرتی ہے۔
نظم و ضبط :نظم و ضبط ، ، باقاعدگی اور سلیقہ سے کام کرتا ہو، وقت کی پابندی کرتا ہو۔
متوازن شخصیت: ذہنی، جذباتی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے ایک متوازن شخصیت کا مالک ہو۔
بلند اخلاق و کردار:
ذاتی طور پر اچھے اخلاق و کردار کا مالک ہو،
معاشرہ کے اخلاقی اقدار کا پیکر ہو۔
سچائی،امانت و دیانت، صبر وتحمل اور خوش اخلاقی میں اعلیٰ مقام رکھتا ہو اور قابل بھروسہ ہو۔
محنت اور استقامت: تدریس کے عمل میں بہت زیادہ محنت اور استقامت سے کام لیتا ہو۔ مشکلات میں تھک ہار جانے کے بجائے اپنے مشن پر ڈٹے رہتا ہو۔
خداداد صلاحیتوں کی پہچان اور پرورش: مدرس اپنے طلبہ کی خدا داد صلاحیتوں کو پہنچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے لئے ان کی تنقیدی فکر کی صلاحیت کو پروان چڑھائے، اُن کو سوال و جواب، اختلاف رائے، تنقید وتبصرہ کرنے ، مسائل کو حل کرنے اور قائدانہ کردار ادا کرنے کے مواقع دیتا ہو۔
احساس ذمہ داری: بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کا حامل ہو۔
جمہوری طرز فکر: آمرانہ طرز کے بجائے شورائی اور مشاورتی اسلوب کے ذریعےسب کو ساتھ لے کے چلتا ہو۔
قوت فیصلہ: منصوبہ بندی اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کرتے وقت کسی تذبذب کا شکار نہ ہو۔
علم و عمل میں مطابقت: جوعلم رکھتا ہو، اُس پر خود عمل بھی کرتا ۔
استاذ کے پیشہ وارانہ اوصاف
پیشہ سے لگاؤ: تدریس کے پیشہ سے دلچسپی ہو۔ اس پیشے کو ازخود اپنے شوق اور سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہو، مجبوری یا اتفاقی طور پر استاذ نہ بنا ہو (A teacher by choice not bychance)
مقاصد سے آگاہی: تعلیم کے عمومی اور نفسِ مضمون کے خصوصی مقاصد سے مکمل آگاہ ہو۔ تاکہ انہی مقاصد کے مطابق طلبہ میں معلومات، مہارتوں اور رویوں کو منتقل کیا جا سکے۔
پیشہ ورانہ تربیت: پیشہ سے متعلق تربیت کا حامل ہو۔
متوازن تدریس : تدریس کا عمل معلومات، مہارتوں اور رویوں پر مبنی ہو۔ مختلف تعلیمی وسائل کے ذریعے تدریس کے عمل کو مؤثر بناتا ہو۔
جائزہ کی مہارت: وہ چیزوں کا بغور مشاہدہ کرتا ہو ، تعلیم کے عمومی اہداف، نفس مضمون کے خصوصی اہداف کے مطابق طلبہ کی کار کردگی اور اور کام کا جائزہ لیتا ہو اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو۔
علمی لیاقت :اپنے مضمون پر وسیع معلومات و تجربات رکھتا ہو، اس کی معلومات صرف نصاب میں شامل درسی کتاب تک محدود نہ ہو بلکہ اس کا مطالعہ اس موضوع پر ہونے والی علمی پیش رفت اور تبدیلیوں کا احاطہ کرتا ہو ۔
تدریس کے لیے تیاری: روزانہ تدریس کے لیے مکمل تیاری کر کے کمرہ جماعت میں داخل ہوتاہو،
طلبہ محوری پر مبنی تدریس: بچوں کی نفسیات کے لحاظ سے تدریس کے مختلف طریقوں پر عبور حاصل ہو۔ اُن کی استعداد، دلچسپیوں اور ضروریات کے مطابق مختلف تدریسی طریقے اختیار کرتا ہو۔
علم سے محبت: بچوں کو علم سے محبت کرنا اور سیکھنا سکھاتاہو۔ انسان کو کو اللہ تعالیٰ نے ذہن ڈکشنری یا معلومات کا خزانہ بنانے کے لیے نہیں دیا ہے بلکہ تحقیق، تنقید اور تخلیق کے لیے دیا ہے۔ لہٰذا طالب علم کو چند اصطلاحات کا منجمد رٹے باز بنانے کے بجائے ایک متفکر اور متحرک انسان بنایا جائے۔ استاذ کے لیے ضروری ہے کہ وہ طلبہ کو موضوع سے متعلق دیگر کتب اور ذرائع کی طرف رہنمائی کرے اور ان پر تحقیق و تنقید کر کے اپنی رائے اور نظریہ کی تشکیل کی رہنمائی کرتا ہو۔
فرض شناس: اپنے تدریسی فرائض کی ادائیگی میں فرض شناسی سے کام لیتا ہو۔
عدل و انصاف : مختلف سطح اور کارکردگی کے حامل طلبہ کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیتا ہو۔ اچھی کار کردگی پر شاباش دے، غلطی کرنے پر شائستہ انداز میں اس کی اصلاح کرے۔
مساوات : کسی جسمانی معذوری یا سماجی حیثیت کی بنا پر کسی قسم کی تفریق کیے بغیر تمام طلبہ کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہو اور سب کی عزت نفس اور وقار کا لحاظ رکھتا ہو۔ ضوابط پر عمل در آمد کرنے میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرتا ہو۔
طلبہ سے ہمدردی: طلبہ کے علمی اور عملی مسائل کو ہمدردری سے سنتا ہو اوار ان کی رہنمائی کرتا ہو۔
حوصلہ افزائی: طلبہ کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہو خاص طور پر جب کوئی طالب علم کوئی تخلیقی، تحقیقی، تنقیدی، ادبی اور تعلیمی لحاظ سے نمایاں کام سر انجام دے تو اس کی باقی طلبہ و اساتذہ کر سامنے تعریف و حوصلہ افزائی کرتا ہو۔
کمرہ جماعت کا انتظام : کمرہ جماعت کا انتظام اس طرح کرتا ہو جس سے طلبہ کی ہمہ جہت اور موثر تعلم و ترقی کا عمل مزید ثمر آور ہو۔
عصری تقاضوں سے آگاہی: مختلف شعبہ ہائے زندگی اور تعلیمی میدانوں میں آنے والی تبدیلیوں اور بدلتے حالات سے آگاہی ، حسب ضرورت ٹیکنالوجی پر مہارت اور مختلف زبانوں پر عبور رکھتا ہو۔
سادہ زبان : انداز بیان سادہ ہو، جو طلبہ کی ذہنی استعداد کے مطابق ہو۔
عملی زندگی سے مطابقت: طلبہ کو عملی زندگی کے لیے تیار کرتا ہو۔ اُن تک ایسی معلومات اور مہارتیں منتقل کرے جو انہیں اُن کی زندگی میں کام آئیں۔ طلبہ کے سامنے ایسی مثالیں پیش کرتا ہو جو اُن کی عملی زندگی سے مطابقت رکھتی ہوں۔
ہم نصابی سرگرمیاں : نصاب کے علاوہ ہم نصابی مشاغل مثلاً مطالعہ ، مکالمہ، فنون ، تقریرو تحریر اورکھیل کود کے مقابلے وغیرہ جیسی سرگرمیوں میں حصّہ لیتا ہو۔
پیشہ ورانہ تعلقات: اپنے پیشے سے متعلق لوگوں اور اداروں سے تعلق رکھتا ہو۔ ان میں سے درج ذیل کے ساتھ بہت اہم ہیں :
استاذ کے طلبہ سے تعلقات ایسے ہوں کہ وہ اپنے مسائل استاذ کو بلا جھجک بتا سکیں۔
استاذ کے رفقائے کار سے تعلقات ایسے ہوں کہ وہ ایک دوسرے کی بہتری کے لیے کارآمد ہوں۔
استاذ کے انتظامیہ سے تعلقات ایسے ہوں کہ طلبہ اور ادارے کے لیے مدد گار ہوں۔
استاذ کے معاشرہ سے تعلقات ایسے ہوں کہ معاشرے کی عمومی فلاح اور تعلیم کے فروغ میں کلیدی اہمیت کےحامل ہوں۔ استاذ کے معاشرہ سے تعلقات میں طلبہ کے والدین، رشتہ دار اور دیگر لوگ شامل ہوں۔
استاذ کے چند عمومی اوصاف
راہنما: وہ بچوں کی رہنمائی کرتا ہو اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کر تا ہو۔
انسان ساز: وہ اپنی معلومات، تجربات اور صلاحیتوں کی بنا پر بچوں کو انسان کے اعلیٰ اوصاف سے مزین کرتا ہو۔
تربیت کار: وہ اپنے تجربات کی بنیاد پر تعلیم کے ساتھ عملی تربیت کا ماہر ہو۔
مشیر: اُس سے جب مشورہ لیاجائے، تووہ مفید مشورہ دیتا ہو۔
ترقی کی راہ ہموار کرنے والا : وہ راستے کی رکاوٹوں کو دور کر کے وہ آگے ترقی کے لیے بچوں کو تیار کرتا ہو۔
تکمیل کرنے والا : وہ ہمہ جہت تربیت کا حامل ہواور کامل بنانے کا ماہر ہو۔
مددگار : وہ مدد دینے کے وقت دوسروں کی مدد کرتا ہو۔
ترمیم کنندہ: وہ موقع محل اور زمانے کی ضروریات کے مطابق تعلیم و تربیت کے اُمور میں ترمیم کر تا ہو۔ وہ منجمد اور قدامت پسند و شدت پسند نہ ہو بلکہ مقتضائے حال کے مطابق متحرک، لچک دار اور جدت پسند ہو۔
معمار: وہ طلبہ کی شخصیت کی متوازن تعمیرکے ذریعے قوم کی تعمیر کرتا ہو۔
نجات دہندہ:وہ کامیابی کا راستہ بتلا کر انسانوں کو غربت، جہالت اور گمراہی سے نجات کا راستہ دکھاتا ہو۔
سہولت کار: وہ طلبہ کو تعلم اور ترقی کے عمل میں سہولت کاری کر تا ہے اور اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
نبض شناس: وہ موضوع شناس، ہدف شناس، اسلوب شناس، مردم شناس اور موقع شناس ہو ۔
ایک اچھے مدرس کے اوصاف
تحریر: محمد حسین ( ماہر نصابیات، فاضل جامعۃ الکوثر و ریسرچ سکالر پی ایچ ڈی ان ایجوکیشن)
ایک اچھے مدرس کے اوصاف
معلم تعلیم کا ایک بنیادی و لازمی عنصر اور نظام تعلیم کی کامیابی و مقاصد کے حصول کا اہم کردار ہوتا ہے۔ معلم ہر وہ انسان ہے جس سے دوسرے لوگ سیکھیں جبکہ مدرس وہ انسان ہے جو تدریس کو اپنا پیشہ بناتا ہے۔ مدرس اپنی شخصیت، پیشہ اور عمومی کردار کے لحاظ سے نمایاں اوصاف کا حامل ہو کر ہی تدریس میں مؤثر اور نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ اور ان اوصاف کی مدد سے وہ تعلیمی عمل کو مؤثر اور بامقصد بنا سکتا ہے ۔ مدرس کی چند ذاتی، پیشہ وارانہ اور عموی اوصاف درج ذیل ہیں:
اخلاص: تدریس ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے۔ لہٰذا استاذ میں اپنے پیشے، طلبہ اور مضمون کے اعتبار سے اخلاص ایک کلیدی وصف ہے۔
جسمانی صحت : ذہنی اور جسمانی لحاظ سے ایسی معذوری میں مبتلا نہ ہو جس سے تدریس کرنے سے ہی قاصر ہو۔
دلکش شخصیت : نظافت و نفاست کی حامل شخصیت کا مالک ہو۔ کیونکہ اس کی ظاہری نظافت و نفاست کی اس کی تدریس اور طلبہ کے تعلم کو متاثر کرتی ہے۔
نظم و ضبط :نظم و ضبط ، ، باقاعدگی اور سلیقہ سے کام کرتا ہو، وقت کی پابندی کرتا ہو۔
متوازن شخصیت: ذہنی، جذباتی، روحانی اور اخلاقی لحاظ سے ایک متوازن شخصیت کا مالک ہو۔
بلند اخلاق و کردار:
ذاتی طور پر اچھے اخلاق و کردار کا مالک ہو،
معاشرہ کے اخلاقی اقدار کا پیکر ہو۔
سچائی،امانت و دیانت، صبر وتحمل اور خوش اخلاقی میں اعلیٰ مقام رکھتا ہو اور قابل بھروسہ ہو۔
محنت اور استقامت: تدریس کے عمل میں بہت زیادہ محنت اور استقامت سے کام لیتا ہو۔ مشکلات میں تھک ہار جانے کے بجائے اپنے مشن پر ڈٹے رہتا ہو۔
خداداد صلاحیتوں کی پہچان اور پرورش: مدرس اپنے طلبہ کی خدا داد صلاحیتوں کو پہنچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے لئے ان کی تنقیدی فکر کی صلاحیت کو پروان چڑھائے، اُن کو سوال و جواب، اختلاف رائے، تنقید وتبصرہ کرنے ، مسائل کو حل کرنے اور قائدانہ کردار ادا کرنے کے مواقع دیتا ہو۔
احساس ذمہ داری: بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کا حامل ہو۔
جمہوری طرز فکر: آمرانہ طرز کے بجائے شورائی اور مشاورتی اسلوب کے ذریعےسب کو ساتھ لے کے چلتا ہو۔
قوت فیصلہ: منصوبہ بندی اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کرتے وقت کسی تذبذب کا شکار نہ ہو۔
علم و عمل میں مطابقت: جوعلم رکھتا ہو، اُس پر خود عمل بھی کرتا ۔
استاذ کے پیشہ وارانہ اوصاف
پیشہ سے لگاؤ: تدریس کے پیشہ سے دلچسپی ہو۔ اس پیشے کو ازخود اپنے شوق اور سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہو، مجبوری یا اتفاقی طور پر استاذ نہ بنا ہو (A teacher by choice not bychance)
مقاصد سے آگاہی: تعلیم کے عمومی اور نفسِ مضمون کے خصوصی مقاصد سے مکمل آگاہ ہو۔ تاکہ انہی مقاصد کے مطابق طلبہ میں معلومات، مہارتوں اور رویوں کو منتقل کیا جا سکے۔
پیشہ ورانہ تربیت: پیشہ سے متعلق تربیت کا حامل ہو۔
متوازن تدریس : تدریس کا عمل معلومات، مہارتوں اور رویوں پر مبنی ہو۔ مختلف تعلیمی وسائل کے ذریعے تدریس کے عمل کو مؤثر بناتا ہو۔
جائزہ کی مہارت: وہ چیزوں کا بغور مشاہدہ کرتا ہو ، تعلیم کے عمومی اہداف، نفس مضمون کے خصوصی اہداف کے مطابق طلبہ کی کار کردگی اور اور کام کا جائزہ لیتا ہو اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو۔
علمی لیاقت :اپنے مضمون پر وسیع معلومات و تجربات رکھتا ہو، اس کی معلومات صرف نصاب میں شامل درسی کتاب تک محدود نہ ہو بلکہ اس کا مطالعہ اس موضوع پر ہونے والی علمی پیش رفت اور تبدیلیوں کا احاطہ کرتا ہو ۔
تدریس کے لیے تیاری: روزانہ تدریس کے لیے مکمل تیاری کر کے کمرہ جماعت میں داخل ہوتاہو،
طلبہ محوری پر مبنی تدریس: بچوں کی نفسیات کے لحاظ سے تدریس کے مختلف طریقوں پر عبور حاصل ہو۔ اُن کی استعداد، دلچسپیوں اور ضروریات کے مطابق مختلف تدریسی طریقے اختیار کرتا ہو۔
علم سے محبت: بچوں کو علم سے محبت کرنا اور سیکھنا سکھاتاہو۔ انسان کو کو اللہ تعالیٰ نے ذہن ڈکشنری یا معلومات کا خزانہ بنانے کے لیے نہیں دیا ہے بلکہ تحقیق، تنقید اور تخلیق کے لیے دیا ہے۔ لہٰذا طالب علم کو چند اصطلاحات کا منجمد رٹے باز بنانے کے بجائے ایک متفکر اور متحرک انسان بنایا جائے۔ استاذ کے لیے ضروری ہے کہ وہ طلبہ کو موضوع سے متعلق دیگر کتب اور ذرائع کی طرف رہنمائی کرے اور ان پر تحقیق و تنقید کر کے اپنی رائے اور نظریہ کی تشکیل کی رہنمائی کرتا ہو۔
فرض شناس: اپنے تدریسی فرائض کی ادائیگی میں فرض شناسی سے کام لیتا ہو۔
عدل و انصاف : مختلف سطح اور کارکردگی کے حامل طلبہ کے درمیان عدل و انصاف سے کام لیتا ہو۔ اچھی کار کردگی پر شاباش دے، غلطی کرنے پر شائستہ انداز میں اس کی اصلاح کرے۔
مساوات : کسی جسمانی معذوری یا سماجی حیثیت کی بنا پر کسی قسم کی تفریق کیے بغیر تمام طلبہ کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہو اور سب کی عزت نفس اور وقار کا لحاظ رکھتا ہو۔ ضوابط پر عمل در آمد کرنے میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرتا ہو۔
طلبہ سے ہمدردی: طلبہ کے علمی اور عملی مسائل کو ہمدردری سے سنتا ہو اوار ان کی رہنمائی کرتا ہو۔
حوصلہ افزائی: طلبہ کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہو خاص طور پر جب کوئی طالب علم کوئی تخلیقی، تحقیقی، تنقیدی، ادبی اور تعلیمی لحاظ سے نمایاں کام سر انجام دے تو اس کی باقی طلبہ و اساتذہ کر سامنے تعریف و حوصلہ افزائی کرتا ہو۔
کمرہ جماعت کا انتظام : کمرہ جماعت کا انتظام اس طرح کرتا ہو جس سے طلبہ کی ہمہ جہت اور موثر تعلم و ترقی کا عمل مزید ثمر آور ہو۔
عصری تقاضوں سے آگاہی: مختلف شعبہ ہائے زندگی اور تعلیمی میدانوں میں آنے والی تبدیلیوں اور بدلتے حالات سے آگاہی ، حسب ضرورت ٹیکنالوجی پر مہارت اور مختلف زبانوں پر عبور رکھتا ہو۔
سادہ زبان : انداز بیان سادہ ہو، جو طلبہ کی ذہنی استعداد کے مطابق ہو۔
عملی زندگی سے مطابقت: طلبہ کو عملی زندگی کے لیے تیار کرتا ہو۔ اُن تک ایسی معلومات اور مہارتیں منتقل کرے جو انہیں اُن کی زندگی میں کام آئیں۔ طلبہ کے سامنے ایسی مثالیں پیش کرتا ہو جو اُن کی عملی زندگی سے مطابقت رکھتی ہوں۔
ہم نصابی سرگرمیاں : نصاب کے علاوہ ہم نصابی مشاغل مثلاً مطالعہ ، مکالمہ، فنون ، تقریرو تحریر اورکھیل کود کے مقابلے وغیرہ جیسی سرگرمیوں میں حصّہ لیتا ہو۔
پیشہ ورانہ تعلقات: اپنے پیشے سے متعلق لوگوں اور اداروں سے تعلق رکھتا ہو۔ ان میں سے درج ذیل کے ساتھ بہت اہم ہیں :
استاذ کے طلبہ سے تعلقات ایسے ہوں کہ وہ اپنے مسائل استاذ کو بلا جھجک بتا سکیں۔
استاذ کے رفقائے کار سے تعلقات ایسے ہوں کہ وہ ایک دوسرے کی بہتری کے لیے کارآمد ہوں۔
استاذ کے انتظامیہ سے تعلقات ایسے ہوں کہ طلبہ اور ادارے کے لیے مدد گار ہوں۔
استاذ کے معاشرہ سے تعلقات ایسے ہوں کہ معاشرے کی عمومی فلاح اور تعلیم کے فروغ میں کلیدی اہمیت کےحامل ہوں۔ استاذ کے معاشرہ سے تعلقات میں طلبہ کے والدین، رشتہ دار اور دیگر لوگ شامل ہوں۔
استاذ کے چند عمومی اوصاف
راہنما: وہ بچوں کی رہنمائی کرتا ہو اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کر تا ہو۔
انسان ساز: وہ اپنی معلومات، تجربات اور صلاحیتوں کی بنا پر بچوں کو انسان کے اعلیٰ اوصاف سے مزین کرتا ہو۔
تربیت کار: وہ اپنے تجربات کی بنیاد پر تعلیم کے ساتھ عملی تربیت کا ماہر ہو۔
مشیر: اُس سے جب مشورہ لیاجائے، تووہ مفید مشورہ دیتا ہو۔
ترقی کی راہ ہموار کرنے والا : وہ راستے کی رکاوٹوں کو دور کر کے وہ آگے ترقی کے لیے بچوں کو تیار کرتا ہو۔
تکمیل کرنے والا : وہ ہمہ جہت تربیت کا حامل ہواور کامل بنانے کا ماہر ہو۔
مددگار : وہ مدد دینے کے وقت دوسروں کی مدد کرتا ہو۔
ترمیم کنندہ: وہ موقع محل اور زمانے کی ضروریات کے مطابق تعلیم و تربیت کے اُمور میں ترمیم کر تا ہو۔ وہ منجمد اور قدامت پسند و شدت پسند نہ ہو بلکہ مقتضائے حال کے مطابق متحرک، لچک دار اور جدت پسند ہو۔
معمار: وہ طلبہ کی شخصیت کی متوازن تعمیرکے ذریعے قوم کی تعمیر کرتا ہو۔
نجات دہندہ:وہ کامیابی کا راستہ بتلا کر انسانوں کو غربت، جہالت اور گمراہی سے نجات کا راستہ دکھاتا ہو۔
سہولت کار: وہ طلبہ کو تعلم اور ترقی کے عمل میں سہولت کاری کر تا ہے اور اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
نبض شناس: وہ موضوع شناس، ہدف شناس، اسلوب شناس، مردم شناس اور موقع شناس ہو ۔
ایک اچھے مدرس کے اوصاف
تحریر: محمد حسین ( ماہر نصابیات، فاضل جامعۃ الکوثر و ریسرچ سکالر پی ایچ ڈی ان ایجوکیشن)