حضرت محمد مصطفیٰ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے فرمایا:
صبر کے ساتھ (امام مہدی ؑ کے)ظہور کا انتظار عبادت ہے
الدعوات الراوندی حدیث101
دینی مدارس کی قابل تقلید خوبیاں
تحریر: ایس ایم شاہ
ہر تعلیمی ادارے کو انسانیت ساز فیکٹری کی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ یہی تعلیمی ادارے ہی ہیں جو سماج کے تقاضوں کے مطابق افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ یہاں جہالت کی تاریکی کو علم کے نور سے منور کرنے کے ساتھ ساتھ بہترین تربیت کے ذریعے سے اس نور کو استعمال کرنے کا ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔ اس وقت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اگر قابل قدر ترقی ہوئی ہے تو یہ تعلیمی اداروں کی مرہون منت ہے۔ درحقیقت جہالت کے علاوہ باقی تمام علوم دینی ہیں۔ لیکن علمی میدان میں خاطر خواہ ترقی کے باعث اب ہر ایک کو تمام علوم میں بہترین طریقے سے مہارت حاصل کرنا مشکل ہو گیا تو مختلف تعلیمی اداروں نے مختلف شعبوں میں تخصص کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ ان اہم تعلیمی اداروں میں سے ایک ہمارے دینی تعلیمی ادارے ہیں۔
دینی مدارس کے نظام تعلیم میں چند ایسی بنیادی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو سرکاری و نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ان اداروں کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:
Group Study (گروہی مطالعہ)
Group Debate(گروہی مباحثہ)
طالب علم کی چوبیس گھنٹے کی مصروفیات مکمل نظم و ضبط کے ساتھ طے ہونا،
ہر وقت طلبہ کو کتاب سے مربوط رکھا جانا، جس سے طلبہ کے اندر کتاب سے ایک خاص انس ایجاد ہوتا ہے۔ مدارس کے اندر Passing marks 60% ہے۔ علاوہ ازیں کتبی امتحان کے علاوہ شفاہی امتحان؛ یعنی written paper کے علاوہ oral exam بھی لیا جاتا ہے۔
دینی مدارس کی ایک اور اہم خوبی علم کو ڈگری کے لیے حاصل کرنے کے بجائے علم کو علم سمجھ کر حاصل کرنا ہے۔ ساتھ ہی جب تک ایک کتاب مکمل طور پر پڑھ کر ختم نہ ہو جائے تو اس سے اگلی کتاب شروع نہیں کی جاتی۔ جس کے باعث طالب علم کو متعلقہ کتاب پر مکمل دسترس حاصل ہو جاتا ہے اور اس کتاب سے ذرا آسان بہت ساری دوسری کتابیں وہ خود ذاتی صلاحیت کی بنا پر حل کرسکتا ہے۔
یہ چند اہم خصوصیات مدارس کے نظام تعلیم کے بنیادی عناصر ہیں۔ عام طور پر ہر دینی مدرسے میں نماز صبح باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ پھر قرآن مجید کی اجتماعی قرأت کی جاتی ہے۔ صبح سات بجے اجتماعی طور پر ناشتہ کیا جاتا ہے۔ تقریبا ساڑھے سات بجے سے بارہ بجے تک باقاعدہ کلاسیں لی جاتی ہیں۔ جن میں علمی سطح کے مطابق کلاس بندی کے ذریعے عربی صرف و نحو، منطق، علم فقہ، اصول فقہ، تجوید القرآن، تفسیر، اردو ادب، انگلش لینگویج اور فارسی زبان و ادب وغیرہ پڑھایا جاتا ہے۔
دینی علوم یعنی علوم عقلی اور علوم نقلی کے دسیوں ذیلی شعبے (Faculties) ہیں: علوم قرآن، علوم حدیث، فلسفہ اسلامی، المنطق، کلام اسلامی، عرفان اسلامی، فقہ اسلامی، علم اصول الفقہ، علم تفسیر، علم قرأت، علم درایہ الحدیث،علم رجال اور علم قضاوت وغیرہ۔ ان میں سے اکثر علوم میں اس وقت حوزہ علمیہ قم اور مشہد مقدس میں پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں بھی ان میں سے مختلف علوم میں تخصص (Specialization) کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے علاوہ علوم انسانی (Social science) کو بھی خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے اور Phycology وغیرہ میں بھی پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ (Faculty)کا انتخاب طالب علم اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ مطلوبہ شعبے کے انٹری ٹیسٹ وغیرہ کو پاس کرنا ضروری ہے۔ حوزہ علمیہ کے (Thises) کا معیار بہت بلند ہے۔ ہمارے ملکی اکثر مدارس میں بھی ان اداروں سے فارغ التحصیل ہوتے وقت تھیسز لکھنے کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔
جس طرح سکول، کالج اور یونیورسٹی کا معیار تعلیم مختلف ہے عین اسی طرح مختلف مدارس کا علمی معیار بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ بعض مدارس میں بنیادی اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں۔ بعض مدارس کی سطح متوسط ہوتی ہے۔ ایسے مدارس میں میٹرک پاس طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ بعض مدارس میں داخلہ ہی تخصص(specialization)
کے لیے دیا جاتا ہے۔ جہاں عصری تعلیم کو دینی علوم سے ہمآھنگ کرنے کے لیے عصری تعلیمی اداروں میں اسلامیات اور عربی وغیرہ پڑھائی جاتی ہے وہیں دینی تعلیمی اداروں میں تعلیمات اسلامی کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے لیے عصری تقاضوں کے مطابق انگریزی زبان، فارسی اور اردو ادب وغیرہ بھی پڑھایا جاتا ہے۔
دن بارہ بجے کے بعد نماز اور ظہرانے کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ کیا جاتا ہے۔ ہر ہفتے ایک مرتبہ درس اخلاق کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں اخلاق نظری اور اخلاق عملی کے ماہر استادِ اخلاق درس اخلاق دیا کرتے ہیں۔ تاکہ طلبہ ہفتے بھر کے اپنے رویوں پر نظر ثانی کر سکیں۔ ظہرانے کے بعد ذرا وقفہ کیا جاتا ہے۔ پھر ایک بڑے ہال میں اجتماعی طور پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے لیے گروپ ڈسکشن ہوتا ہے۔ اس دورانیے میں ایک استاد باقاعدہ نگرانی کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی گروپ ممبر کو درس کے سمجھنے میں کوئی دقت پیش آجائے تو اس استاد سے رہنمائی لیتے ہیں۔ مباحثے کے ہر گروپ میں طلبہ تین تین یا چار چار کی تعداد میں گول دائرے کی صورت میں بیٹھ کر اسی دن جو کچھ پڑھایا گیا ہے وہ ایک دوسرے کو سناتے ہیں، جس سے طلبہ روزانہ کی بنیاد پر اپنا سبق یاد کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو پڑھانے کا ہنر بھی سیکھ لیتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک دوسرے کی رہنمائی اور اصلاح کرتے ہیں۔ اس گروپ میں عام طور پر کلاس کے لائق، متوسط اور کمزور طالب علم کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے تاکہ مختلف ذہنی سطح میں توازن برقرار رکھا جاسکے اور لائق طلبہ کمزور طلبہ کی رہنمائی کرنے کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکے اور کمزور طلبہ باصلاحیت طلبہ کی رہنمائی کے ذریعے اپنی علمی کمزوری کا ازالہ کر سکے۔ ہفتے میں ایک روز بزم ادب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں باری باری مختلف طلبہ تلاوت قرآن مجید کرنے، نعت، تقریر اور شعر پیش کرنے کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مباحثے سے فراغت کے بعد عام طور پر طلبہ مدرسے کے گراؤنڈ میں یا کسی دوسرے گراؤنڈ میں فٹ بال یا والی بال وغیرہ کھیلتے ہیں یا واک کرتے ہیں۔ تاکہ ورزش کے ذریعے سے ذہنی تھکاوٹ کو دور کیا جاسکے۔ پھر مغرب تک طلبہ کے لیے فراغت ہوتی ہے۔ بعدازاں نماز مغرب با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ منگل کو دعائے توسل اور شب جمعہ دعائے کمیل کا پروگرام ہوتا ہے تاکہ طلبہ جسمانی غذا کے ساتھ ساتھ معنوی غذا سے بھی اپنے باطن کو پاکیزہ کرسکے اور اپنے خالق سے لو لگا سکے۔ عشائیے کے بعد عام طور پر آدھے گھنٹے کی مختصر چہل قدمی کی جاتی ہے۔
دینی تعلیمی اداروں میں مدرسے کی لائبریری کے علاوہ ایک الگ Group Study Hall بھی ہوتا ہے۔ اسی ہال میں عشائیے کے بعد Group Study کیا جاتا ہے۔ اس کا دورانیہ بھی عام طور پر ڈیڑھ سے دو گھنٹہ ہوتا ہے۔ مطالعے اور مباحثے کے آغاز میں تمام طلبہ کی حاضری لی جاتی ہے۔ جس کی ذمہ داری کسی سینئر طالب علم کو سونپی جاتی ہے۔ ایک خاص استاد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس دورانیے میں طلبہ کی نگرانی کرتے رہیں۔ مطالعے کے دوران میں ہر قسم کی بات چیت اور موبائل وغیرہ کا استعمال ممنوع ہوتا ہے۔ Study Hall میں مکمل خاموشی کا سماں ہوتا ہے۔ طلبہ ارتکاز ذہنی کے ساتھ اس خاموش فضا میں مکمل دلچسپی اور انہماک کے ساتھ محو مطالعہ رہتے ہیں۔
پھر استراحت کا وقت ہوتا ہے۔ استراحت کے وقت کمروں میں لائٹ جلا کے رکھنا، بات چیت کے ذریعے دیگر رومیٹ حضرات کو ڈسٹرپ کرنا ممنوع ہوتا ہے۔ اس طرح مدرسے میں مکمل چوبیس گھنٹے خاص پروگرامینگ اور ڈسپلن کے تحت طے ہوتے ہیں۔ جمعے کا دن سید الایام یعنی ہفتے کے تمام دنوں کا سردار ہے۔ آداب اسلامی کی رعایت، نماز جمعہ میں شرکت کی اہمیت اور طلبہ کے ذاتی امور کو انجام دینے کے لیے جمعے کو چھٹی کی جاتی ہے۔
یہ دینی مدارس کے وہ قابل تقلید پہلو ہیں جن کی طرف اب ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین تعلیم متوجہ ہوئے ہیں اور اب جامعات میں بھی گروپ ڈسکشن وغیرہ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی ادارے ایک دوسرے سے رابطہ برقرار کریں تاکہ کالج، یونیورسٹی اور دینی مدارس کے طلبہ کے مابین ایک خاص فکری ہم آھنگی پیدا ہو۔ علاوہ ازیں مختلف تعلیمی ادارے قریب سے ایک دوسرے کی خوبیوں کو درک کرنے کے بعد اپنے ادارے میں بھی ان خوبیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو تعلیمی اور تربیتی میدان میں اپنے حصے کی شمع روشن کرکے نسل نو کو بہترین تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرکے مستقبل قریب میں ایک تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ قوم تشکیل دینے کی توفیق دے آمین!
دینی مدارس کی قابل تقلید خوبیاں
تحریر: ایس ایم شاہ
ہر تعلیمی ادارے کو انسانیت ساز فیکٹری کی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ یہی تعلیمی ادارے ہی ہیں جو سماج کے تقاضوں کے مطابق افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ یہاں جہالت کی تاریکی کو علم کے نور سے منور کرنے کے ساتھ ساتھ بہترین تربیت کے ذریعے سے اس نور کو استعمال کرنے کا ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔ اس وقت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اگر قابل قدر ترقی ہوئی ہے تو یہ تعلیمی اداروں کی مرہون منت ہے۔ درحقیقت جہالت کے علاوہ باقی تمام علوم دینی ہیں۔ لیکن علمی میدان میں خاطر خواہ ترقی کے باعث اب ہر ایک کو تمام علوم میں بہترین طریقے سے مہارت حاصل کرنا مشکل ہو گیا تو مختلف تعلیمی اداروں نے مختلف شعبوں میں تخصص کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ ان اہم تعلیمی اداروں میں سے ایک ہمارے دینی تعلیمی ادارے ہیں۔
دینی مدارس کے نظام تعلیم میں چند ایسی بنیادی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو سرکاری و نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ ان اداروں کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:
Group Study (گروہی مطالعہ)
Group Debate(گروہی مباحثہ)
طالب علم کی چوبیس گھنٹے کی مصروفیات مکمل نظم و ضبط کے ساتھ طے ہونا،
ہر وقت طلبہ کو کتاب سے مربوط رکھا جانا، جس سے طلبہ کے اندر کتاب سے ایک خاص انس ایجاد ہوتا ہے۔ مدارس کے اندر Passing marks 60% ہے۔ علاوہ ازیں کتبی امتحان کے علاوہ شفاہی امتحان؛ یعنی written paper کے علاوہ oral exam بھی لیا جاتا ہے۔
دینی مدارس کی ایک اور اہم خوبی علم کو ڈگری کے لیے حاصل کرنے کے بجائے علم کو علم سمجھ کر حاصل کرنا ہے۔ ساتھ ہی جب تک ایک کتاب مکمل طور پر پڑھ کر ختم نہ ہو جائے تو اس سے اگلی کتاب شروع نہیں کی جاتی۔ جس کے باعث طالب علم کو متعلقہ کتاب پر مکمل دسترس حاصل ہو جاتا ہے اور اس کتاب سے ذرا آسان بہت ساری دوسری کتابیں وہ خود ذاتی صلاحیت کی بنا پر حل کرسکتا ہے۔
یہ چند اہم خصوصیات مدارس کے نظام تعلیم کے بنیادی عناصر ہیں۔ عام طور پر ہر دینی مدرسے میں نماز صبح باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ پھر قرآن مجید کی اجتماعی قرأت کی جاتی ہے۔ صبح سات بجے اجتماعی طور پر ناشتہ کیا جاتا ہے۔ تقریبا ساڑھے سات بجے سے بارہ بجے تک باقاعدہ کلاسیں لی جاتی ہیں۔ جن میں علمی سطح کے مطابق کلاس بندی کے ذریعے عربی صرف و نحو، منطق، علم فقہ، اصول فقہ، تجوید القرآن، تفسیر، اردو ادب، انگلش لینگویج اور فارسی زبان و ادب وغیرہ پڑھایا جاتا ہے۔
دینی علوم یعنی علوم عقلی اور علوم نقلی کے دسیوں ذیلی شعبے (Faculties) ہیں: علوم قرآن، علوم حدیث، فلسفہ اسلامی، المنطق، کلام اسلامی، عرفان اسلامی، فقہ اسلامی، علم اصول الفقہ، علم تفسیر، علم قرأت، علم درایہ الحدیث،علم رجال اور علم قضاوت وغیرہ۔ ان میں سے اکثر علوم میں اس وقت حوزہ علمیہ قم اور مشہد مقدس میں پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں بھی ان میں سے مختلف علوم میں تخصص (Specialization) کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کے علاوہ علوم انسانی (Social science) کو بھی خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے اور Phycology وغیرہ میں بھی پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔ (Faculty)کا انتخاب طالب علم اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ مطلوبہ شعبے کے انٹری ٹیسٹ وغیرہ کو پاس کرنا ضروری ہے۔ حوزہ علمیہ کے (Thises) کا معیار بہت بلند ہے۔ ہمارے ملکی اکثر مدارس میں بھی ان اداروں سے فارغ التحصیل ہوتے وقت تھیسز لکھنے کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔
جس طرح سکول، کالج اور یونیورسٹی کا معیار تعلیم مختلف ہے عین اسی طرح مختلف مدارس کا علمی معیار بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ بعض مدارس میں بنیادی اسلامی تعلیمات دی جاتی ہیں۔ بعض مدارس کی سطح متوسط ہوتی ہے۔ ایسے مدارس میں میٹرک پاس طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ بعض مدارس میں داخلہ ہی تخصص(specialization)
کے لیے دیا جاتا ہے۔ جہاں عصری تعلیم کو دینی علوم سے ہمآھنگ کرنے کے لیے عصری تعلیمی اداروں میں اسلامیات اور عربی وغیرہ پڑھائی جاتی ہے وہیں دینی تعلیمی اداروں میں تعلیمات اسلامی کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے لیے عصری تقاضوں کے مطابق انگریزی زبان، فارسی اور اردو ادب وغیرہ بھی پڑھایا جاتا ہے۔
دن بارہ بجے کے بعد نماز اور ظہرانے کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ کیا جاتا ہے۔ ہر ہفتے ایک مرتبہ درس اخلاق کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں اخلاق نظری اور اخلاق عملی کے ماہر استادِ اخلاق درس اخلاق دیا کرتے ہیں۔ تاکہ طلبہ ہفتے بھر کے اپنے رویوں پر نظر ثانی کر سکیں۔ ظہرانے کے بعد ذرا وقفہ کیا جاتا ہے۔ پھر ایک بڑے ہال میں اجتماعی طور پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے لیے گروپ ڈسکشن ہوتا ہے۔ اس دورانیے میں ایک استاد باقاعدہ نگرانی کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی گروپ ممبر کو درس کے سمجھنے میں کوئی دقت پیش آجائے تو اس استاد سے رہنمائی لیتے ہیں۔ مباحثے کے ہر گروپ میں طلبہ تین تین یا چار چار کی تعداد میں گول دائرے کی صورت میں بیٹھ کر اسی دن جو کچھ پڑھایا گیا ہے وہ ایک دوسرے کو سناتے ہیں، جس سے طلبہ روزانہ کی بنیاد پر اپنا سبق یاد کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو پڑھانے کا ہنر بھی سیکھ لیتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک دوسرے کی رہنمائی اور اصلاح کرتے ہیں۔ اس گروپ میں عام طور پر کلاس کے لائق، متوسط اور کمزور طالب علم کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے تاکہ مختلف ذہنی سطح میں توازن برقرار رکھا جاسکے اور لائق طلبہ کمزور طلبہ کی رہنمائی کرنے کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکے اور کمزور طلبہ باصلاحیت طلبہ کی رہنمائی کے ذریعے اپنی علمی کمزوری کا ازالہ کر سکے۔ ہفتے میں ایک روز بزم ادب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں باری باری مختلف طلبہ تلاوت قرآن مجید کرنے، نعت، تقریر اور شعر پیش کرنے کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مباحثے سے فراغت کے بعد عام طور پر طلبہ مدرسے کے گراؤنڈ میں یا کسی دوسرے گراؤنڈ میں فٹ بال یا والی بال وغیرہ کھیلتے ہیں یا واک کرتے ہیں۔ تاکہ ورزش کے ذریعے سے ذہنی تھکاوٹ کو دور کیا جاسکے۔ پھر مغرب تک طلبہ کے لیے فراغت ہوتی ہے۔ بعدازاں نماز مغرب با جماعت ادا کی جاتی ہے۔ منگل کو دعائے توسل اور شب جمعہ دعائے کمیل کا پروگرام ہوتا ہے تاکہ طلبہ جسمانی غذا کے ساتھ ساتھ معنوی غذا سے بھی اپنے باطن کو پاکیزہ کرسکے اور اپنے خالق سے لو لگا سکے۔ عشائیے کے بعد عام طور پر آدھے گھنٹے کی مختصر چہل قدمی کی جاتی ہے۔
دینی تعلیمی اداروں میں مدرسے کی لائبریری کے علاوہ ایک الگ Group Study Hall بھی ہوتا ہے۔ اسی ہال میں عشائیے کے بعد Group Study کیا جاتا ہے۔ اس کا دورانیہ بھی عام طور پر ڈیڑھ سے دو گھنٹہ ہوتا ہے۔ مطالعے اور مباحثے کے آغاز میں تمام طلبہ کی حاضری لی جاتی ہے۔ جس کی ذمہ داری کسی سینئر طالب علم کو سونپی جاتی ہے۔ ایک خاص استاد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس دورانیے میں طلبہ کی نگرانی کرتے رہیں۔ مطالعے کے دوران میں ہر قسم کی بات چیت اور موبائل وغیرہ کا استعمال ممنوع ہوتا ہے۔ Study Hall میں مکمل خاموشی کا سماں ہوتا ہے۔ طلبہ ارتکاز ذہنی کے ساتھ اس خاموش فضا میں مکمل دلچسپی اور انہماک کے ساتھ محو مطالعہ رہتے ہیں۔
پھر استراحت کا وقت ہوتا ہے۔ استراحت کے وقت کمروں میں لائٹ جلا کے رکھنا، بات چیت کے ذریعے دیگر رومیٹ حضرات کو ڈسٹرپ کرنا ممنوع ہوتا ہے۔ اس طرح مدرسے میں مکمل چوبیس گھنٹے خاص پروگرامینگ اور ڈسپلن کے تحت طے ہوتے ہیں۔ جمعے کا دن سید الایام یعنی ہفتے کے تمام دنوں کا سردار ہے۔ آداب اسلامی کی رعایت، نماز جمعہ میں شرکت کی اہمیت اور طلبہ کے ذاتی امور کو انجام دینے کے لیے جمعے کو چھٹی کی جاتی ہے۔
یہ دینی مدارس کے وہ قابل تقلید پہلو ہیں جن کی طرف اب ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین تعلیم متوجہ ہوئے ہیں اور اب جامعات میں بھی گروپ ڈسکشن وغیرہ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی ادارے ایک دوسرے سے رابطہ برقرار کریں تاکہ کالج، یونیورسٹی اور دینی مدارس کے طلبہ کے مابین ایک خاص فکری ہم آھنگی پیدا ہو۔ علاوہ ازیں مختلف تعلیمی ادارے قریب سے ایک دوسرے کی خوبیوں کو درک کرنے کے بعد اپنے ادارے میں بھی ان خوبیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو تعلیمی اور تربیتی میدان میں اپنے حصے کی شمع روشن کرکے نسل نو کو بہترین تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرکے مستقبل قریب میں ایک تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ قوم تشکیل دینے کی توفیق دے آمین!