حضرت امام علی عليه‌السلام نے فرمایا: گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کیے رہنا توبہ کرنے والوں کی عبادت ہے۔ مستدرک الوسائل حدیث 13208

توحید

1. اللہ کا وجود
ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ اس پوری کائنات کا خالق ہے اور اس دنیا میں موجود ہر شئی کی پیشانی پر اس کی عظمت ،قدرت اور علم کی نشانیاں جلوہ نما ہے۔ اب چاہے وہ ہماراجودہویاجمادات و نباتات، آسمان کے ستارے ہوں یا عالم بالا ۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم اس دنیا کے رازوں کے بارے میں جتنا زیادہ غورو فکر کریں گے اس پاک ذات کی عظمت ، قدرت اور علم کے بارے میں ہم کو اتنی ہی زیادہ جانکاری حاصل ہوگی ۔ جیسے جیسے انسان کاعلم بڑھ رہا ہے ویسے ویسے اس کے علم و حکمت ہم پر ظاہر ہوتے جارہے ہیں اور سے ہماری فکر میں اضافہ ہورہاہے۔ یہ فکر ہی اس ذات سے عشق کو زیادہ بڑائے گی اور ہر لمحہ ہم کو اس مقدس ذات سے قریب تر کرتی رہے گی اور اس کے نور جلال و جمال میں غرق کردے گی۔

قرآن کریم فرماتا ہے کہ وفی الارض آیات للموقنین وفی انفسکم افلا تبصرون

یعنی یقین حاصل کرنے والوں کے لئے زمین میں نشانیاں موجود ہیں اور کیا تم نہیں دیکھتے کہ خودتمہارے وجود میں بھی نشانیاں پائی جاتی ہیں؟ ان فی خلق السمٰوات والارض واختلاف اللیل والنه ار لآیات لاولی الالباب الذین یذکرون الله قیاماً وقعوداً وعلی جنوب هم ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت هذا باطلاً یعنی بیشک زمین و آسمان کی خلقت میں اور رات کے آنے جانے میں صاحبان عقل کے لئے نشانیاں ہیں۔ ان صاحبان عقل کے لئے جو کھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے اور کروٹ سے لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی خلقت کے رازوں کے بارے میں فکر کرتے ہیں( اور کہتے ہیں) اے پالنے والے تونے انھیں بیکار خلق نہیں کیا ہے۔

2. صفات جمال و کمال
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ اور تمام کمالات سے آراستہ ہے۔ بلکہ کمال مطلق و مطلق کمال ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دنیا میں جتنے بھی کمال اور اچھائیاں پائی جاتی ہیں ان سب کا سرچشمہ وہی پاک ذات ہے۔

هو الله لا اله الا هو الملک القدوس السلام المومن المهیمن العزیز الجبار المتکبر سبحان الله عما یشرکون هوالله الخالق البارئ المصور له الاسماء الحسنی ٰ یسبح له ما فی السموات والارض هو العزیز الحکیم یعنی اللہ وہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہی اصلی حاکم و مالک ہے، وہ ہر عیب سے پاک ومنزہ ہے، وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا، وہ امن دینے والا اور ہر چیز کی مراقبت کرنے والا ہے، وہ ایسا قدرت مند ہے کہ جس کے لئے شکست نہیں ہے، وہ اپنے نافذ ارادہ سے ہر کام کی اصلاح کرتا ہے ، وہ شائستہ عظمت ہے، وہ اپنے شریک سے منزہ ہے۔ وہ اللہ بے سابقہ خالق و بے نظیر مصور ہے، اس کے لئے نیک کام( ہر طرح کے صفات کمال) ہیں، جو بھی زمین وآسمانوں میں پایا جاتا ہے اس کی تسبیح کرتا ہے وہ عزیزو حکیم ہے۔

اس کے کچھ صفات جلال و کمال یہ ہیں۔

3. اس کی پاک ذات لامتناہی ہے
ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کا وجود لامتناہی ہے از نظر علم و قدرت ، و از لحاظ حیات ابدیت و ازلیت ، اسی وجہ سے وہ زمان و مکان میں نہیں پایا جاتا کیونکہ جو بھی زمان و مکان میں پایا جاتا ہے وہ محدود ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہر وقت اورہر جگہ موجود رہتاہے کیونکہ وہ فوق زمان و مکان ہے و هو الذی فی السماء ا له وفی الارض ا له وهو الحکیم العلیم یعنی (اللہ )وہ ہے جو زمین میں بھی موجود ہے اور آسمان مین بھی اور وہ علیم وحکیم ہے و ہو معکم اینما کنتم واللہ بما تعملون بصیر یعنی تم جہاں بھی ہو وہ تمھارے ساتھ ہے اور جو تم انجام دیتے ہو وہ اس کو دیکھتا ہے۔

ہاں وہ ہم سے خودہماری ذات سے زیادہ نزدیکتر ہے، وہ ہماری روحو و جان میں ہے، وہ ہر جگہ موجود ہے لیکن پھر بھی اس کے لئے کوئی مکان نہیں ہے ونحن اقرب الیه من حبل الورید یعنی ہم اس سے اس کی شہ رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

هو الاول ولآخر و الظاهر والباطن وهو بکل شی ٴ علیم یعنی وہ (اللہ) اول و آخر وظاہر و باطن ہے اور ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

ہم جو قرآن میں پڑھتے ہیں ذوالعرش المجید وہ صاحب عرش و عظمت ہے۔ یہاں پر عرش سے مراد کوئ اونچا شاہی تخت نہیں ہے۔ اور ہم قرآن کی ایک دوسری آیت میں جو یہ پڑھتے ہیں الرحمن علی العرش استوی ٰ یعنی رحمن (اللہ) عرش پر ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ ایک خاص مکان میں رہتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے جہان مادی اورجہان ماوراء طبیعت پر اس کی حاکمیت ہے۔ کیونکہ اگر ہم اس کے لئے کسی خاص مکان کے قائل ہو جائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اس کو محدود کردیا ہے، اس کے لئے مخلوقات کے صفات ثابت کر دئے ہیں اور اس کو دوسری تمام چیزوں کی طرح مان لیا جب کہ قرآن خود فرماتا ہے کہ لیس کمثله شی ٴ یعنی کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے۔ ولم یکن له کفواً احد یعنی اس کے مانند و مشابہ کسی چیز کا وجودنہیں ہے۔

4. نہ وہ جسم ہے اور نہ ہی دکھائی دیتا ہے
ہمار عقیدہ ہے کہ اللہ آنکھوں سے ہر گز دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ آنکھوں سے دکھائی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک جسم ہے جس کو مکان، رنگ، شکل اور سمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تمام صفتیں مخلوقات میں پائی جاتی ہیں اور اللہ اس سے برتر و بالا ہے کہ اس میں مخلوقات کی صفتیں پائی جائیں۔

اس بنا پر اللہ کو دیکھنے کا عقیدہ ایک طرح کا شرک ہے۔ کیونکہ قرآن فرماتا ہے کہ لاتدرکه الابصار و هو یدرک الابصار و هو اللطیف الخبیر یعنی آنکھیں اسے نہیں دیکھتیں مگر وہ سب آنکھوں کو دیکھتا ہے اور وہ بخشنے والا اور جاننے والاہے۔

اسی وجہ سے جب بنی اسرائیل کے بہانے باز لوگوں نے جناب موسی علیہ السلام سے اللہ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ لن نؤمن لک حتی ٰ نری الله جهرةً یعنی ہم آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کھلے عام اللہ کو نہ دیکھ لیں۔ حضرت موسی علیہ السلام ان کو کوہ طور پر لے گئے اور جب اللہ کی بارگاہ میں ان کے مطالبہ کو دہرایا تو ان کو یہ جواب ملا کہ لن ترانی ولکن انظر الی ٰ الجبل فان استقر مکانه فسوف ترانی فلما تجلی ٰ ربه للجبل جعله دکاً وخرموسی ٰ صعقا فلما افاق قال سبحانک تبت الیک وانا اول المومنین یعنی تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکو گے لیکن پہاڑ کی طرف نگاہ کرو اگر تم اپنی حالت پر باقی رہے تو مجھے دیکھ پاؤ گے اور جب ان کے رب نے پہاڑ پر جلوہ کیا تو انھیں راکھ بنادیا اور موسیٰ بیہوش ہوکر زمین پر گر پڑے، جب ہوش آیا تو عرض کیا کہ پالنے والے تو اس بات سے منزہ ہے کہ تجھے آنکھوں سے دیکھا جا سکے میں تیری طرف واپس پلٹتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سے پہلا مومن ہوں۔ اس واقعہ سے ثابت ہوجاتا ہے کہ خداوند متعال کو ہر گز نہیں دیکھا جاسکتا۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ جن قرانی آیات و اسلامی روایات میں اللہ کو دیکھنے کا تذکرہ ہواہے وہاں پر دل کی آنکھوں سے دیکھنا مردا ہے نہ کہ چشم ظاہری سے کیونکہ قرآن کی آیتیں ہمیشہ ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں القرآن یفسر بعضہ بعضاً

اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ” یا امیر المومنین هل را ٴ یت ربک یعنی اے امیر المومنین کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا: ” اَاَعبد مالا اری “ یعنی کیا میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کو نہیں دیکھا؟ اس کے بعد فرمایا: ” لا تدرکه العیون بمشاهدة العیان، ولکن تدرکه القلوب بحقایق الایمان “ اس کو یہ آنکھیں تو ظاہری طور پر نہیں دیکھ سکتی مگر دل ایمان کی طاقت سے اس کو درک کرتا ہے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کے لئے مخلوق کی صفات کا قائل ہونا جیسے اللہ کے لئے مکان، جہت، مشاہدے اور جسمانیت کا عقیدہ رکھنا اللہ کی معرفت سے دوری اور شرک میں آلودہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ وہ تمام ممکنات اور ان کے صفات سے برتر ہے ،کوئی بھی چیز اس کے مثل نہیں ہوسکتی ۔

5. توحید ، تمام اسلامی تعلیمات کی روح ہے
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کی معرفت کے مسائل میں مہم ترین مسئلہ معرفت توحید ہے۔ توحید درواقع اصول دین کی ایک اصل ہی نہیں بلکہ تمام سلامی عقائد کی روح ہے ۔اور یہ بات صراحت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اسلام کے تمام اصول وفروع توحید سے ہی وجود میں آتے ہیں۔ ہر منزل پر توحید کی باتیں ہیں، وحدت ذات پاک، توحید صفات و افعال خدا اور دوسری تفسیر یہ کہ و حدت دعوت انبیاء، وحدت دین وآئیین الٰہی ، وحدت قبلہ اور کتاب آسمانی،تمام انسانوں کے لئے احکام و قانون الٰہی کی وحدت، وحدت صفوف مسلمین اور وحدت یوم المعاد۔

اسی وجہ سے قرآن کریم نے توحید الٰہی کے سلسلہ میں ہرطرح کے انحراف اورشرک کو نہ بخشاجانے والا گناہ کہا ہے۔ ان الله لایغفر ان یشرک به ویغفر مادون ذلک لمن یشاء ومن یشرک بالله فقد افتری اثما عظیماً یعنی اللہ شرک کو ہرگز نہیں بخشے گا، (لیکن اگر) شرک کے علاوہ (دوسرے گناہ ہیں) توجس کے گناہ چاہے گا بخش دے گا، اور جس نے کسی کو اللہ کا شریک قرارادیا گویااس نے اس پر تہمت لگائ اور ایک بہت بڑا گناہ انجام دیا ولقد اوحی الیک والی ٰ الذین من قبلک لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین یعنی بتحقیق تم پراور تم سے پہلے پیغمبروں پر وحی کی گئی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارے تمام اعمال حبط کردیئے جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔

6. توحید کی قسمیں
ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں سے چار اقسام بہت اہم ہیں:

1۔ توحید در ذات
یعنی اس کی ذات یکتا و تنہا ہے اور کوئی اس کے مثل نہیں ہے۔

2۔ توحید درصفات
یعنی اس کے صفات علم ،قدرت ،ازلیت، ابدیت و ۔۔۔۔۔ تمام اس کی ذات میں جمع ہیں اوراس کی عین ذات ہیں۔اس کے صفات مخلوقات کے صفات جیسے نہیں ہیں کیونکہ مخلوق کے تمام صفات ایک دوسرسے جدا اور ان کی ذات بھی صفات سے جدا ہوتی ہے البتہ عینیت ذات خدا وند باصفات کو سمجھنے کے لئے دقت نظر اور ظرافت فکر ی کی ضرورت ہے۔

3۔ توحید در افعال
ہمارا عقید ہے کہ اس عالم ہستی میں جو افعال،حرکات واثرات پائے جاتے ہیں، ان سب کا سرچشمہ ارادہٴ الٰہی اور اس کی مشیت ہے الله خالق کل شی ٴ و هوعلی ٰ کل شی ٴ وکیل یعنی ہر چیز کا خالق اللہ ہے اور وہی ہر چیز کا حافظ و ناظر ہے له مقالید السموات والارض زمین و آسمان کی تمام کنجیاں اس کے دست قدرت میں ہے ” لامؤثرفی الوجود الا الله ” اس جہان ہستی میں اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی اثر انداز نہیں ہے۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم اپنے اعمال میں مجبور ہیں، بلکہ اس کے برعکس ہم اپنے ارادوں وفیصلوں میں آزاد ہیں ان هدیناه السبیل واما شاکرا واما کفور اً ہم نے انسان کی ہدایت کردی ہے (اس کو راستہ دکھادیاہے ) اب چاہے وہ شکریہ ادا کرے (یعنی اس کو قبول کرے )یا کفران نعمت کرے (یعنی اس کو قبول نہ کرے۔ وان لیس للانسان الا ما سعی ٰ یعنی انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کے لئے اس نے کوشش کی ہے ۔قرآن کی آیت اس بات کی طرف صریحاًاشارہ کررہی ہے کہ انسان اپنے ارادہ میں آزاد ہے۔ لیکن چونکہ اللہ نے ارادہ کی آزادی اور ہرکام کو انجام دینے کی قدرت ہم کو عطا کی ہے،اس لئے ہمارے کام اس کے بغیر کہ اپنے کاموں کے بارے میں ہماری ذمہ داری کم ہو ،اس کی طرف اسنادپیدا کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہئے۔ ہاں اس نے ارادہ کیا ہے کہ ہم اپنے اعمال کو آزادی کے ساتھ انجام دین تاکہ وہ اس طریقہ سے ہماری آزمائش کرسکے اور ہمیں راہ تکامل میں آگے بڑھا سکے۔ انسان کا تکامل تنہا آزادئی ارادے اور اختیار کے ساتھ اللہ کی اطاعت پر منحصر ہے،کیوں کہ بے اختیاری و جبری اعمال نہ کسی کے نیک ہونے کی دلیل ہے اور نہ بد ی کی۔

اصولاً اگر ہم اپنے اعمال میں مجبور ہوتے تو آسمانی کتابوں کا نزول،انبیاء کی بعثت، دینی تکالیف، تعلیم و تربیت اور اسی طرح سے اللہ کی طرف سے ملنے والی سزا خالی از مفہوم رہ جاتی۔

یہ وہ چیز ہے کہ جس کو ہم نے مکتب ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے سیکھا ہے انھوں نے ہم سے فرمایا ہے کہ ” نہ جبر مطلق صحیح ہے اور نہ تفویض مطلق بلکہ ایک چیز ہے، لاجبر ولا وتفویض ولکن امراً بین الامرین “

4۔ توحید در عبادت
یعنی عبادت صرف اللہ سے مخصوص ہے اور اس کی پاک ذات کے علاوہ کسی معبود کا وجو د نہیں ہے۔توحید کی یہ قسم سب سے اہم قسم ہے اور اس کی اہمیت اس بات سے آشکار ہو جاتی ہے کہ اللہ کی طرف سے آنے والے تمام انبیاء نے اس پر ہی زیادہ زور دیا ہے < وما امروا لا لیعبدوا الله مخلصین له الدین حنفاء ۔۔۔ وذلک دین القیمة یعنی پیغمبروں کو اس کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ تنہا اللہ کی عبادت کریں، اور اپنے دین کو اس کے لئے خالص بنائیں اور توحید میں کسی کو شریک قرار دینے سے دور رہیں۔۔۔۔۔۔اور یہی اللہ کا محکم ایمان ہے۔

اخلاق و عرفان کے تکامل کے مراحل طے کرنے سے توحید اور عمیق تر ہو جاتی ہے اور انسان اس منزل پر پہونچ جاتا ہے کہ فقط اللہ سے ہی لو لگائے رکھتا ہے۔ہرجگہ اس کو چاہتا ہے اور اس کے علاوہ کسی غیر کے بارے میں نہیں سوچتا۔ اور کوئی چیز اسے اللہ سے ہٹا کر اپنے میں مشغول نہیں کرتی کلما شغلک عن اللہ فہو صنمک یعنی جوچیز تمہیں اللہ سے دور کرکے اپنے میں الجھا دے وہی تمہارا بت ہے۔

5۔ توحید درمالکیت
یعنی ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے لله ما فی السمو ٰات وما فی الارض

6۔ توحید در حاکمیت
یعنی قانون فقط اللہ کا قانون ہے ومن لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکافرون یعنی جو اللہ کے نازل کئے ہوئے (قانون کے مطابق) فیصلہ نہیں کرتے وہ سب کافر ہیں۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید افعالی اس حقیقت کی تاکید کرتی ہے کہ اللہ کے پیغمبروں نے جو معجزات دکھائے ہیں وہ اللہ کے حکم سے تھے۔ کیونکہ قرآن کریم حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ وتبری ٴ الاکمه والابرص باذنی واذ تخرج الموتی ٰ باذنی یعنی تم نے مادر آزاد اندھوں اور لاعلاج کوڑھیوں کو میرے حکم سے صحت دی اور مردوں کو میرے حکم سے زندہ کیا ۔

اور جناب سلیمان علیہ السلام کے ایک وزیر کے بارے میں فرمایا قال الذی عنده علم من الکتاب انا آتیک به قبل ان یرتد الیک طرفک فلما راه مستقراً عنده قال هذا من فضل ربی یعنی جس کے پاس آسمانی کتاب کا تھوڑا سا علم تھا اس نے کہا کہ اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے میں اسے (تخت بلقیس) آپ کی خدمت میں لے آؤں گا۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو اپنے پاس کھڑا پایا تو کہا یہ میرے پروردگار کے فضل سے ہے۔

اس بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اللہ کے حکم سے لاعلاج مریضوں کو شفا دینے اور مردوں کو زندہ کرنے کی نسبت دینا جس کو قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، عین توحید ہے۔

7. فرشتگان خدا
فرشتوں کے وجود پر ہمارا یقین ہے او رہمارا عقیدہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی ایک خاص ذمہ داری ہے:

ایک گروہ پیغمبر وں پر وحی لانے پر معمور ہے۔

ایک گروہ انسانوں کے اعمال کو حفظ کرنے پر ۔

ایک گروہ روحوں کو قبض کرنے پر۔

ایک گروہ استقامت کے لئے مومنین کی مدد کرنے پر ۔

ایک گروہ جنگ میں مومنوں کی مدد کرنے پر ۔

ایک گروہ باغی قوموں کو سزا دینے پر ۔

اور ان کی ایک سب سے اہم ذمہ داری اس جہان کے نظام سے متعلق ہے ۔کیونکہ یہ سب ذمہ داریاں اللہ کے حکم اور اس کی طاقت سے ہیں، لہٰذا اصل توحید افعالی اور توحید ربوبیت کے متنافی نہیں ہے بلکہ اس پر تاکید ہیں۔

ضمناً یہاں سے مسئلہ شفاعت پیغمبران ،معصومین علی ہم السلام وفرشتگان بھی روشن ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کے حکم سے ہے لہٰذا یہ عین توحید ہے < مامن شفیع الامن بعد اذنہ یعنی کوئی شفاعت کرنے والانہیں ہے مگر اللہ کے حکم سے ۔مسئلہ شفاعت اور توسل کے بارے میں زیادہ شرح نبوت کی بحث میں بیان کی جائے گی ۔

8. عبادت صرف اللہ سے مخصوص ہے
ہمارا عقیدہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی ذات سے مخصوص ہے۔ (جیسا کہ اس بارے میں توحیدعبادت کی بحث میں اشارہ کیا گیا ہے) اس بنا پر جو بھی اس کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کرتا ہے وہ مشرک انجامدیتا ہے۔تمام انبیاء کی تبلیغ بھی اسی نکتہ پر مرکوز تھی اعبدوا اللہ مالکم من الہ غیرہ یعنی اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمھارا اور کوئی معبود نہیں ہے ۔یہ بات قرآن کریم میں پیغمبروں سے متعدد مرتبہ نقل ہوئی ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم تمام مسلمان ہمیشہ اپنی نمازوں میں سورہٴ حمد کی تلاوت کرتے ہوئے اس اسلامی نعرہ کو دہراتے رہتے ہیں ایاک نعبد وایاک نستعین یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اللہ کے اذن سے پیغمبروں و فرشتوں کی شفاعت کا عقیدہ جو قرآن کریم کی آیات میں بیان ہوا ہے عبادت کے معنی میں ہے۔

پیغمبروں سے اس طر ح کا توسل جس میں یہ خواہش کی جائے کہ پروردگار کی بارگاہ میں توسل کرنے والے کی مشکل کاحل طلب کریں ،نہ تو عبادت شمار ہوتا ہے او رنہ ہی توحید افعالی یا توحید عبادی کے منافی ہے ۔اس مسئلہ کی شرح نبوت کی بحث میں بیان کی جائے گی۔

9. ذات خدا کی حقیقت
سب سے پوشیدہ ہے ہماراعقیدہ ہے کہ اس کے باوجود کہ یہ دنیا اللہ کے وجود کی نشانیوں سے پر ہے، پھر بھی اس کی ذات کی حقیقت کسی پر روشن نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس کی ذات کی حقیقت کوسمجھ سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی ذات ہر لحاظ سے لا محدود اور ہماری ذات ہر لحاظ سے محدودہ، لہٰذا ہم اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرسکتے الا انه بکل شی ٴ محیط یعنی جان لو کہ اس کا ہر چیز پر احاطہ ہے ۔یا یہ آیت کہ واللہ من ورائہم محیط یعنی اللہ ان سب پر احاطہ رکھتا ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک مشہور ومعروف حدیث ہے کہ: ” ماعبدناک حق عبادتک واما عرفناک حق معرفتک “ یعنی نہ ہم نے تیرا حق عبادت ادا کیا اور نہ حق معرفت۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس طرح ہم اس کی ذات پاک کے علم تفصیلی سے محروم ہیں اسی طرح علم اجمالی ومعرفت سے بھی محروم ہیں اور معرفة اللہ کے باب میں صرف ان الفاظ پر قناعت کرتے ہیں جن کا ہمارے لئے کوئی مفہوم نہیں ہے۔ معرفة اللہ کایہ باب ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کے معتقد ہیں ،کیونکہ قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتابیں اللہ کی معرفت کے لئے ہی نازل ہوئی ہیں۔

اس موضوع کے لئے بہت سی مثالیں بیان کی جاسکتی ہیں جیسے ہم روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں لیکن روح کے وجودکے بارے میں ہمیں اجمالی علم ہے اور ہم اس کے آثارکا مشاہدہ کرتے ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ: ” کلما میزتموه باوهامکم فی ادق معانیة مخلوق مصنوع مثلکم و مردود الیکم “ یعنی تم اپنی فکر و فہم میں جس چیز کو بھی اس کے دقیق معنی میں تصو رکروگے وہ مخلوق اور تمھاری پیدا کی ہوئی چیزہے، جو تمھاری ہی مثل ہے اور وہ تمھاری ہی طرف پلٹا دی جائے گی ۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے معرفة اللہ کے دقیق و نازک مسئلے کو بہت سادہ وزیبا تعبیر کے ذریعہ بیان فرمایا ہے: ” لم یطلع الله سبحانه العقول علی ٰ تحدید صفته ولم یحجبها امواج معرفته “یعنی اللہ نے عقلوں کو اپنی ذات کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا لیکن اس کے باوجود ضروری معرفت سے محروم بھی نہیں رکھا۔

10. نہ تعطیل نہ تشبیہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ جس طرح سے اللہ کی پہچان اور اس کے صفات کی معرفت کو ترک کرنا صحیح نہیں ہے اسی طرح اس کی ذات کو دوسری چیزوں سے تشبیہ دینا بھی غلط اور موجب شرک ہے۔ یعنی جس طرح اس کی ذات کو دوسری مخلوق سے مشابہ نہیں مانا جاسکتا اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے پاس اس کے پہچاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور اس کی ذات اصلاً قابل معرفت نہیں ہے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کیونکہ ایک راہ افراط اور دوسری راہ تفریط ہے۔