حضرت امام علی عليه‌السلام نے فرمایا: حکمرانی سے تمہاری غرض مالی منفعت اور غیظ و غضب کی تسکین نہیں، بلکہ سب سے بڑا مقصد باطل کی موت اور حق کو زندہ رکھنا ہونا چاہئے بحارالانوار تتمۃ کتاب تاریخ امیرالمومنین ؑ باب 98

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۶۱﴾
۲۶۱۔ جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان(کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں جن میں سے ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے عمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے، اللہ بڑا کشائش والا، دانا ہے۔

اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتۡبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ﴿۲۶۲﴾
۲۶۲۔ جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا صلہ ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔

قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیۡمٌ﴿۲۶۳﴾
۲۶۳۔ نرم کلامی اور درگزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد (خیرات لینے والے کو ) ایذا دی جائے اور اللہ بڑا بے نیاز بڑا بردبار ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی ۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَیۡہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلۡدًا ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۲۶۴﴾
۲۶۴۔ اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو اپنا مال صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، پس اس کے خرچ کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سے مٹی ہو، پھر اس پر زور کا مینہ برسے اور اسے صاف کر ڈالے، (اس طرح) یہ لوگ اپنے اعمال سے کچھ بھی اجر حاصل نہ کر سکیں گے اور اللہ کافروں کی راہنمائی نہیں کرتا۔

وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۲۶۵﴾
۲۶۵۔ اور جو لوگ اپنا مال اللہ کی خوشنودی کی خاطر اور ثبات نفس سے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو، جس پر زور کا مینہ برسے تو دگنا پھل دے اور اگر تیز بارش نہ ہو تو ہلکی پھوار بھی کافی ہو جائے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے ۔

اَیَوَدُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ تَکُوۡنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ لَہٗ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ وَ اَصَابَہُ الۡکِبَرُ وَ لَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآءُ ۪ۖ فَاَصَابَہَاۤ اِعۡصَارٌ فِیۡہِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۲۶۶﴾٪
۲۶۶۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں جاری ہوں اور اس کے لیے اس میں ہر قسم کے میوے موجود ہوں اور جب بڑھاپا آ جائے اور اس کے بچے بھی ناتواں ہوں تو ناگہاں یہ باغ ایک ایسے بگولے کی زد میں آجائے جس میں آگ ہو اور وہ جل جائے؟ اللہ یوں تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے شاید تم غور و فکر کرو۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ وَ مِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ﴿۲۶۷﴾
۲۶۷۔ اے ایمان والو! جو مال تم کماتے ہو اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے عمدہ حصہ (راہ خدا میں)خرچ کرو اور اس میں سے ردی چیز دینے کا قصد ہی نہ کرو اور (اگر کوئی وہی تمہیں دے تو) تم خود اسے لینا گوارا نہ کرو گے مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ اور جان رکھو کہ اللہ بڑا بے نیاز اور لائق ستائش ہے۔

اَلشَّیۡطٰنُ یَعِدُکُمُ الۡفَقۡرَ وَ یَاۡمُرُکُمۡ بِالۡفَحۡشَآءِ ۚ وَ اللّٰہُ یَعِدُکُمۡ مَّغۡفِرَۃً مِّنۡہُ وَ فَضۡلًا ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۶۸﴾ۖۙ
۲۶۸۔ شیطان تمہیں تنگدستی کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کی ترغیب دیتا ہے، جبکہ اللہ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ بڑا صاحب وسعت، دانا ہے۔

یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ﴿۲۶۹﴾
۲۶۹۔ وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی جائے گویا اسے خیر کثیر دیا گیا ہے اور صاحبان عقل ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔

وَ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ نَّفَقَۃٍ اَوۡ نَذَرۡتُمۡ مِّنۡ نَّذۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ﴿۲۷۰﴾
۲۷۰۔ اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو یا نذر مانتے ہو اللہ کو اس کا علم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔